Monday, September 17, 2018

Pakistan 2018


میری عمر ۴۳ برس ہے۔ میری بچپن کی پہلی سیاسی یادداشت زولفقار علی بھٹو کی پھانسی سے شروع ہوتی ہے۔ میرے گھرانے کے افراد ایک ہی وقت میں افسردہ بھی تھے اور یہ بھی کہتے جاتے تھے کہ اسے اپنے کیے کی سزا ملی ہے۔ میرے جیسے بہت سے بچے اسی مخمسے میں بڑے ہوتے گئے کہ جنرل ضیا اس ملک کا مرد مومن ہے یا ایک آمر۔ اس سیاسی سوچ بچار کے بیچ ہی ہم سکولوں کالجوں میں مروج نصاب کی کتب پڑہتے رہے اور اس خوش فہمی کا شکار رہے کہ ہر مسلمان بادشاہ دنیا کا بہترین منصف ہوتا ہے، رواداری اور مساوات کو پروان چڑہاتا ہے اورہم اس بات پر نازاں رہے کہ ہم بھی ایک مسلم معاشرے میں پل بڑھ رہے ہیں لہزا راوی سب چین ہی لکھے گا۔ ہمارے پاس بہترین ریلوے کا نظام، ایک عمدہ گرینڈ ٹرنک روڈ، نہری نظام، ٹیلیفون اور ڈاک کا نظام اور خدا جانے کیا کیا موجود تھا، ہے اور رہے گا۔
اپنی سولہ سالہ تعلیم کے دوران مجھے اس بات پر بھی یقین ہو چکا تھا کہ ہم اس دنیا کی سب سے زیادہ ٹیلنٹڈ قوم ہیں ہمارے نوجوان جوشیلے ہیں محنتی ہیں اور بہادر ہیں۔ اب اس فارمولہ سے ذیادہ تو کچھ اور نہیں چاہئے کامیابی کے لیے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ دنیا میں جو بھی علم رائج ہے وہ ہمارے ہی آباء کی دین ہے اس لیے تمام دنیا کو ہمارا شکر گزار ہونا چاہئے اور ہماری آئندہ نسلوں میں بھی ایسے ہی اعلی افراد جنم ہیتے رہیں گے کیونکہ اقبال کہہ گئے تھے کہ زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑِی زرخیز ہے ساقی۔ یہاں سے ایسے ایسے گوہر نایاب پیدا ہوں گے کہ دنیا رشک کرے گی۔
اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ میں نے ایم اے ای پی ایم میں داخلہ لے لیا اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سینئر پروفیسرز نے ایک کے بعد ایک راز ہم پر کھولنے شروع کیے۔ انہوں نے ماضی حال اور مستقبل کے ان اوراق کو ہمارے سامنے رکھا جن سے ہمیں کبھی متعارف بھی نہیں کروایا گیا تھا، ہماری نصابی کتب کیسے بنتی رہی اور کیسے کیسے ہم ان میں تبدیلیاں کرتے رہے۔ نظریہ پاکستان کو ہم نے کیا معنی دیے اور بتانے والوں نے ہمارے معنی کیسے مرتب کیے۔ پاکستان کو ترقی کی راہوں پر ڈالنے والوں نے کیسی منصوبہ بندی کی اور ایک کے بعد ایک حکومت وقت نے ان منصوبوں کو کیسے سبو تاژ کیا۔ حکومت عسکری ہو یا عوامی ہر دور حکوت کے اپنے اپنے مقاصد ہوتے ہیں اور ان ہی کے زیر سایہ منصوبہ سازی کی جاتی رہی ہے۔
اس کے بعد مجھے ایک ڈگری انگلینڈ سے اور ایک امریکہ سے کرنے کا موقع ملا۔ میں نے اپنی سی پوری کوشش کی کہ میں تمام تر سازشی تھیوریاں لاگو کروں اور ان کے ہاں ہونے والی ترقی کو کسی گھناءونی سازش ہی کا نتیجہ سمجھوں لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے عروج اور ان کی پروان میں کئی صدیوں کا فاصلہ ہے۔ ہم نے دنیا کو علوم دیے اس میں کوئی شک نہیں، ہم کرہ ارض کے بہترین خطے میں موجود ہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں۔ لیکن  ہم اب بھی اقبال کی پریشانی کو سمجھ نہیں پا رہے۔ بھلا دی ہم نے جو اصلاف سے میراث پائی تھی۔۔۔
میں نے گزشتہ دو دنوں میں ایک بار پھر ایک نیشنل گریجوئیٹ کانفرنس کروائی۔ بطور کنوینر میں نے ۴۰۰ طلبہ اور ان کے نگران اساتزہ کو مدعو کیا کہ وہ اپنے تحقیقی مکالہ جات پیش کریں۔ یہ ایک انتہائی خوش آئند امر ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ہمارے ہاں تحقیق کو یقینی بنایا ہے۔ لیکن یہ تحقیق کیا بینالاقوامی معیار پر پورا اترتی ہے؟ کیا اس سے حاصل ہونے والے نتائج آنے والے وقت کے لیے ہمیں ضروری علم مہیا کر رہے ہیں؟ اور کیا ہمارے طلبہ کو یہ بھی معلوم ہے کہ دنیا اس وقت تحقیق پرائے تحقیق نہیں کرتی۔ دنیا کو نت نئی ایجادات اور موجودہ مسائل کے حل کی تلاش ہے۔
موجودہ مسائل ہیں کیا۔۔۔پانی خوراک صحت تعلیم اخلاقیات توانائی اور کرہ ارض پر زندگی کے موافق ماحولیاتی عوامل۔ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں سب لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے؟ کیا ہمارے ہاں بچوں جوانوں اور بزرگوں کو ان کی ضرورت کے مطابق خوراک میسر ہے؟ کیا صحت کی بنیادی سہولیات ملک بھر میں موجود ہیں؟ کیا ہر بچہ اور ہر جوان ایک منظم تعلیمی عمل سے گزر رہا ہے؟ کیا سماجی و معاشرتی اقدار اخلاقیات کو پروان چڑھا رہی ہیں؟ کیا سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم خود مختار ہیں؟ کیا ہم نے توانائی کے قدرتی اور انسان کے تخلیق شدہ زرائع کا بھرپور فائدہ حاصل کیا ہے؟ کیا ہم ماحولیاتی آلودگی سے بچنے اور اس کے تدارک کے لیے عمل پیرا ہیں؟ اگر ان میں سے ذیادہ تر سوالات کا جواب نفی میں ہے تو یہ انتہائی پریشانی کا مقام ہے۔
یقینا" پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے جسے ہم نے ۷۱ سال میں بے حد گندہ کر دیا ہے، کسی بھی سیاحی مقام پر چلے جائیں آپ کو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ملے گا، یقینا" اللہ نے ہمیں زرخیز زمین دی ہے جس پر ہم نے آج تک کسی قسم کی ٹیکنالوجی یا سائنسی مہارت کو پیداوار بڑھانے کے لیے استعمال نہیں کیا، سیالکوٹ، فیصل آباد اور کئی ایک مقامات اپنی صنعتکاری سے جانے جاتے ہیں لیکن وہاں موجود لیبر لاز اور خصوصا" چائلڈ لیبر سے ہم سب واقف ہیں۔ ہم ایک ایٹمی طاقت بن چکے ہیں لیکن ہمارے ہاں توانائی کا شدید بحران ہے، ہمارے ہاں دنیا کے سب سے بڑے موبائل نیٹورک موجود ہیں، دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس موجود ہے، کوئلے سونے اور تیل کے بہت بڑے زخائر موجود ہیں، گوادر جیسی بہترین ڈرائی پورٹ موجود ہے، کراچی جیسی سمندری بندرگاہ موجود ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں  بنیادی تربیت، تعلیم، سہولیات اور اخلاقیات موجود نہیں۔ ایک سطحی سوچ سے آگےمنعکسی، تنقیدی اور تعمیری سوچ موجود نہیں۔ ہماری تقریبا" ۳۵ فیصد آبادی ۱۵-۴۰ سال کے افراد پر مشتمل ہے یہ کسی بھی قوم کے لیے ایک امید کی کرن ہو سکتی ہے اگر یہ کارآمد اور زمہ دار شہری ہوں لیکن بے روز گار اور ڈیپینڈٹ نوجوان قطعا" ہمارے لیے سرمایہ نہیں ہو سکتے۔ ہمارے نوجوان دن کے ۱۲ بجے سے پہلے جاگتے نہیں تو ستاروں پر کمند کیسے ڈالیں گے۔
۷۱ سالہ پاکستان اور ۴۳ سالہ میں پریشان ہیں کیونکہ سڑک پر روزانہ جن رویوں کی میں گواہ بنتی ہوں وہ ترقی پسند قوموں کا رویہ نہیں۔

Tuesday, August 7, 2018

HRM and Educational Planning

(THIS BLOG IS WRITTEN AFTER A DISCUSSION SESSION WITH DR. ATHAR OSAMA IN PhD EPM WORKSHOP)

The Human Resource Management has been there since people started working for others and "others" started planning and managing work for the slaves, servants, employees etc. Personnel Management developed more in industrial era, where workforce was dealt more like machines, the world wars brought more into it in the form of "choosing right man for the right job"; while the "HRM" in its current form is an outcome of Humanistic school of thought from late nineteenth century onward. Frmers and Labor unions gave voice to the working hands. We now consider employers and employees at negotiation front. ILO has played a vital role. Today we are living in an era of globalization, digitization and technological advancement. Now the skills and qualities needed for future are different from previous centuries.

HRD and HRM are not only planned at organizational and institutional level, rather these are planned at National and Sectoral level as well. At national level we look at it in connection with our educational planning. Until the age of SSC a child knows nothing about how to become economically active. The out of school children have better chances to become skillful than the ones in schools. The schools prepare them only "learning" theoretical knowledge at very lower level of cognition. Practical skills are no where. At HSC level we fix them into the boxes of Arts and Sciences then within those we fix them in a combination of subjects that are predetermined e.g. a biology student cannot learn math. Some of the students go towards TEVT institutions and learn some practical skills there, yet that is a very small ratio.  Then only a small population goes into undergraduate programs BA, BSc or BS. In the two years program there again is only knowledge base being expanded, while in some specific programs some practical component is added. In the model of BS 4 years an effort has been made to include more practice oriented components but the teachers/ faculty is not executing the way it was planned. Same is the case with most of the Masters programs. At the end of 14-16 years of education most of the students only "know" the theories and do not even learn to question or critique them. Even after 16 years of education we still cannot claim about their level of learning beyond "knowledge" Some of them move to professional colleges after 12 years schooling and prepare for a specific profession. After achieving a professional degree they look for jobs.

The employability of the graduates is reported very low. The reason mainly is lack of practical skills needed by the market and industry. Then for whom are we preparing our "graduate"??? The employers do not find competent candidates and at the end compromise on quality; graduates do not find jobs and either stay unemployed for long or compromise on low salary jobs; yet they do not find themselves ready for creating a job or starting a work on their own. This is and should be a matter of concern for all of us. One government gives monetary support, one gives small business loans and another plans to create jobs for "employable"

Another step towards human resource development is to offer scholarships to the capable students. Amazingly here again there is no planning on the basis of need analysis. The scholarships are more donor driven than need based. Need is not defined with clarity. We yet do not have a regional data base of local occupations, professions, crafts and skills. The foreign scholarships are being wasted because majority of our 14-16 years graduate are unable to pass or attain the required GRE and GAT scores. Some of the local initiatives like PIF reports that their initial tests and exams were found hard to pass by the graduates of prestigious universities. CSS is another example where the pass ratio is decreasing and Government is compromising on the quality of CSP officers induction. We need graduates for 21st century while we are stuck with the old models of teaching and learning. The scenario is changing rapidly and we need to re-think the structure of long duration programs in the presence of MOOCs etc

Doctorate and post doctorate studies are not "for all" but the people applying for these programs usually cannot answer a simple question of "why they want to go for PhD and post doc" They take it as a further level of education to apply for a better job or to get promotion/increment. PhD and Post Doctoral studies should only be taken up by the candidates who are aware of the fact that it is the level of "knowledge creation". It cannot and should not be merely another degree to learn more theories and collect factual knowledge. 

Schooling, further education, technical, vocational and professional education as well as higher education policies, vision documents and plans should be read and reviewed carefully to make it realistic and need based. Only research and grounded work can help the policy makers.

Thursday, February 22, 2018

کیا ہم محفوظ ہیں۔۔۔

آپ جانتے ہیں کہ انسان کی ابتدائی زندگی کیسی تھی، وہ کیسے رہتا تھا اور کیسے جیتا تھا۔ جینے کے لیے کتنے جتن کرتا تھا۔ اس کی زندگی کو کیسے کیسے خطرے لاحق تھَے اور کیسی کیسی کاوشوں سے اپنی حفاظت، بھوک، پیاس اور زندگی کی دیگر ضروریات کو پورا کرتا تھا۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ کسی اور مخلوق خدا نے اپنی اور انے پریوار کی حفاظت کے لیے اتنی تگ و دو نہیں کی جتنی انسان نے کی ہے۔ ایسا لگتا ہے انسان کو اپنی زندگی سے بے انتہا محبت رہی ہو گی۔ تبھی تو اس نے اپنے لیے ایک سے ایک کی ایجادات کی اوراعلی ترین حفاظتی ہتھیار بنائے۔ میں نے کسی ذہین ترین جانور کو بھی اینٹ یا پتھر تک اٹھا کر مارتے نہیں دیکھا۔ جبکہ اللہ کی اس بہترین مخلوق نے ایک ہی وار میں سینکڑوں، ہزاروں اور لاکھوں جانوں کو مار ڈالنے کے ہتھیار بنا ڈالے ہیں۔ روز اول سے انسان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور نہ جانے کب تک لڑتا رہے گا۔ خود کو جانوروں اور موسمی حالات سے محفوظ رکھتے رکھتے ایک اور جنگ جس میں انسان جانے کب سے پڑا رہا ہے وہ ہے انسان کی انسان کے خلاف محاظ آرائی۔
ایک طرف تو انسان ایک گھرانے، گروہ اور اس دور میں ایک معاشرے کا حصہ بن کے رہنا چا ہتا ہے اور دوسری طرف اسے ہر دوسرے تیسرے چوتھے شخص سے بیزاری ہے۔ ایسا کیوں اور کب ہوتا ہے۔ انسان نے اپنے لیے جن معاشرتی اقدار کو اپنا لیا ہے اس میں خوراک، صحت، معاشرت اور زندگی کی تمام تر ضروریات و سہولیات، ایک ملکیت اور طاقت کی صورت دیکھی جا رہی ہیں۔ اگر اس کے کا اچھا زریعئہ معاش ہے، اچھا اور محفوظ گھر ہے، اچھی گاڑی ہے، بینک میں رقم موجود ہے، ایک صحتمند کنبہ ہے، دوست یار ہیں؛ یعنی ایک خوش کن طرز زندگی ہے تو اسے لگتا ہے یہ سب اس کے لیے نعمتیں تو ہیں جو اس نے بڑی محنت سے حاصل کی ہیں، لیکن ان کے چھن جانے کے خوف سے وہ آج تک باہر نہیں نکل سکا۔ اور نکلتا بھی کیسے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے آس پاس بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یہ سب حاصل نہیں کر پائے۔ اب یہ شخص اپنے تئِیں سوچ لیتا ہے کہ لوگ  اسے رشک اور بہت ممکن ہے حسد کی نظر سے دیکھتے ہوں گے ۔ یہ  سوچ خوف کی سیڑھی کا پہلا قدم ہے۔ اس سوچ سے اس نے زندگی جو کچھ پا رکھا ہے وہ باعث رحمت ہونے کی بجائے باعث زحمت بننا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی زندگی کی آسودگی ہی اس کی سب سے بڑی پریشانی بننا شروع ہو جاتی ہے۔ اس پریشانی سے نکلنے کے لیے وہ اور کماتا اور مزید حفاظتی اقدامات کرتا ہے۔ اکثر لوگوں کو اپنی زندگی میں اس کا انجام یاد نہیں رہتا، اور وہ بقا کی جنگ میں پڑے رہنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہی زندگی ہے۔
فرائیڈ میری نظر میں اپنے دور کا بہترین ماہر نفسیات تھا۔ جس نے جنسی اور طاقت کی ہوس کو دو اہم ترین محرکات کے طور پر بیان کیا۔ فرائیڈ کی تھیوری کو ماننے والے لوگ بھی اکثر یہ ماننے سے ہچکچاتے ہیں۔ اور دبے سے لفظوں میں بس اتنا کہتے ہیں کہ ہاں کافی حد تک فرائیڈ صحیح کہتا تھا، لیکن۔۔۔ اور پھر اس لیکن کے بعد مختلف تاویلیں دی جاتی ہیں۔ انسان نے اپنے رویوں سے بارہا یہ ثابت کیا ہے اور کرتا رہے گا کہ ہاں اسے طاقت اور جنسی خواہشات نے بہت سے اعمال کرنے پر آمادہ کیا لیکن کیوں کہ آج کا انسان ایک مہزب معاشرے کی معاشرت کا لبادہ اوڑھے رکھنا چاہتا ہے اس لیے وہ دونوں محرکات کے تابع ہونے کا اعتراف نہیں کرنا چاہتا۔ وہ انہیں دونوں محرکات سے سب ذیادہ منکر رہتا ہے۔ اپنی ذات کی نفی کرنا اور اپنے محرکات سے اختلاف رکھنا عام بندے کے بس کی بات نہیں۔ اس کوشش میں صرف وہ لوگ کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں جو درویشی، صوفیانہ یا فقیرانہ راہ پر چل نکلتے ہیں۔ یہ عام بندے کے بس کی باتیں نہیں۔ یہ وہ مشکل راستہ ہے جس کے پہلے سنگ میل تک پہنچنے والا بھی لاکھوں میں پہچانا جاتا ہے۔ ابتدا میں،لوگ اسے جنونی، دیوانہ اور جانے کیا کیا کہتے ہیں مگر تب تک جب تک کہ وہ اس کی سچی اور مخلص سوچ کو سمجھ نہیں جاتے۔
انہیں دو محرکات کے مرہون منت دوسری نہج پر پہنچنے والے لوگ اور طرز کے جنونی ہوتے ہیں۔ وہ طاقت اور جنسی ہوس کا اس قدر شدت سے شکار ہوتے ہیں کہ ہر جائز و ناجائز طریقہ سے اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان پر سوار جنون بھی ان کے آس پاس کے لوگوں پر ویسے ہی عیاں ہوتا ہے جیسے کہ درویشی کا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے آس پاس پائے جانے والے ذیادہ تر افراد ان دونوں انتہائی حدود کے درمیان ہوتے ہیں۔ جو لوگ میانہ رو ہیں، نہ تو اپنے محرکات اور دنیاوی خواہشوں سے اس قدر دور کہ فقیری اپنا لیں اور نہ ان کے اس قدر حصار میں کہ بر بریت پر اتر آئیں۔ ایک صحتمند معاشرہ وہی ہے جہاں دونوں انتہائوں پر پائے جانے والے لوگوں کی تعداد میانہ رو لوگوں کی نسبت کم رہتی ہے۔ ان انتہائوں پر پائے جانے والے لوگوں کو ایسے صحتمند معاشرے میں پہنچاننا آسان ہے لیکن زرا تصور کیجئے کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں میانہ رو افراد کے روپ میں جنسی اور طاقت کی ہوس کے مارے لوگ چھپے بیٹھے ہوں اور درویشی کا لبادہ تک اوڑھ لیں تو اس میں انسان کس قدر غیر محفوظ ہو گا۔ وہ اپنے آس پاس کس پر یقین کرے گا جب طاقت کے نشے سے چور خود کو درویش اور صوفی گردانتا ہو، جنسی ہوس میں ڈوبے ہوے لوگ خود کو دین داری کی پوشاک میں لیے پھرتے ہو۔ ایک عام آدمی کس قدر خوف و خطرے میں ہو گا۔ کیا آپ جانتے ہیں ایسا معاشرہ پنپنے دینے میں کسی اور کا نہیں وہاں کے رہنے والوں ہی کا دوش ہے۔ انہوں نہے آسانی اور سہل پسندی کی زندگی اپنائی۔ خود کو سوچ، احساس اور شعور سے بے بہرہ رہنے دیا۔ وہ کام جو اپنے کرنے کے تھے، کسی اور کے کرنے کے منتظر رہے اور آج طاقت اور جنسی  ہوس اور بے راہ روی ان کے دروازوں کی دہلیز پھلانگ چکی ہے۔